A journalist’s murder settled with blood money — Remembering Shahid Soomro

Pakistan Press Foundation pays tribute to daily Kawish journalist Shahid Soomro who was murdered in front of his house on October 20, 2002. Suspects in Soomro’s case were presented before a court however the matter was resolved in a settlement between the two parties. Soomro’s family withdrew the case after being paid Rs1.6 million.

As we commemorate Soomro’s work on his death anniversary, his case also highlights a trend that is often seen when a journalist is murdered in Pakistan — the payment of blood money to conclude a case. While a victim’s family may have no other alternative due to possible security concerns and financial pressures, this trend is also a reflection of the lack of legal support of families of murdered journalists. In the presence of effective bodies, strong action and support, families may not need to accept settlements.

On October 2, 2002, a correspondent in the town of Kandhkot Soomro,26,  was shot dead in front of his house. He was shot in the abdomen at around midnight, when he tried to resist five men who wanted to kidnap him.

He was allegedly killed in revenge for his reporting during the recently concluded election campaign.

According to Soomro’s colleagues, his reporting had angered a recently elected member of the provincial assembly from Kandhkot Mir Mehmood Bijarani. Colleagues said Soomro had received death threats.

According to details, the two brothers of the MPA-elect Bijarani, Waheed Ali Bijarani and Muhammad Ali Bijarani, and their three accomplices arrived at Soomro’s house at midnight and called him to come out of his home. When he came out, the assailants tried to kidnap him. They shot him with Klashnikov and TT pistols when he resisted and then escaped in a car.

Soomro was taken to hospital in critical condition but died on the way to the hospital.

According to Kandhkot Police Station Head Moharrar Imdad Chandio, police had arrested the culprits and presented them in a sessions court. However the issue was resolved between both parties and the victim’s family withdrew the case after receiving the Rs1.6 million.

Soomro’s cousin Saud Alam Soomro said that his family had settled the matter over monetary compensation. Influential people in the area had suggested that the matter be resolved by a jirga, he said. On October 28, 2003 a jirga awarded damages of Rs 1.65 million to Soomro’s widow and five children.

Larkana Press Club President Zafar Ali told PPF that it was very unfortunate that the blood of journalists goes in vain because of the culture of blood money, adding that families of murdered journalists accept the blood money due to pressure from influential persons, who make it difficult for them to live if they reject the blood money.

ایک صحافی کا قتل خون بہا سے طے پایا گیا، شاہد سومرو کی یاد میں

پاکستان پریس فاؤنڈیشن نے روزنامہ کاوش کے صحافی شاہد سومرو کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ جنہیں 20 اکتوبر 2002 کو ان کے گھر کے سامنے قتل کیا گیا تھا۔ سومرو کے مقدمے کے ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا تاہم دونوں فریقین کے درمیان معاملہ طے پاگیا۔ سومرو کے اہل خانہ نے 1.6 ملین روپے کی ادائیگی کے بعد مقدمہ واپس لے لیا۔

جیسا کہ ہم سومرو کی برسی کے موقع پر ان کے کام کو یاد کررہے ہیں، ان کا مقدمہ ایک ایسے رجحان کو بھی اجاگر کرتا ہے جو اکثر اس وقت دیکھا جاتا ہے جب پاکستان میں کسی صحافی کو قتل کیا جاتا ہے یعنی کسی مقدمے کو ختم کرنے کے لئے خون بہا کی ادائیگی۔ اگرچہ ممکنہ سیکورٹی خدشات اور مالی دباؤ کی وجہ سے متاثرہ خاندان کے پاس کوئی اور متبادل نہیں ہوسکتا ہے، یہ رجحان قتل ہونے والے صحافیوں کے اہل خانہ کی قانونی حمایت نہ ہونے کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ اگرچہ موثر اداروں، سخت کارروائی اور معاونت کی موجودگی میں خاندانوں کو خون بہا قبول کرنے کی ضرورت نہیں۔

اکتوبر 20، 2002 کو کندھ کوٹ  قصبے میں 26 سالہ نمائندہ سومرو کو اس کے گھر کے سامنے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ آدھی رات کے قریب اس کے پیٹ میں گولی ماری گئی، جب اس نے پانچ افراد کے خلاف مزاحمت کرنے کی کوشش کی جو اسے اغوا کرنا چاہتے تھے۔

حال ہی میں ختم ہونے والی انتخابی مہم کے دوران ان کی رپورٹنگ کا بدلہ لینے کے لئے انہیں مبینہ طور پر قتل کردیا گیا تھا۔

سومرو کے ساتھیوں کے مطابق ان کی رپورٹنگ نے کندھ کوٹ سے حال ہی میں منتخب ہونے والے رکن صوبائی اسمبلی، میر محمود بجرانی کو ناراض کر دیا تھا۔ ساتھیوں نے بتایا کہ سومرو کو جان سے مارنے کی دھمکیاں ملی تھیں۔

 تفصیلات کے مطابق نومنتخب ایم پی اے بجرانی کے دونوں بھائی وحید علی بجرانی اور محمد علی بجرانی اور ان کے تین ساتھی آدھی رات کو سومرو کے گھر پہنچے اور انہیں اپنے گھر سے باہر آنے کا کہا۔ جب وہ باہر آئے تو حملہ آوروں نے انہیں اغوا کرنے کی کوشش کی۔جب سومرو نے مزاحمت کی تو انہوں نے اسے کلاشنکوف اور ٹی ٹی پستول سے گولی مار دی اور پھر ایک کار میں فرار ہوگئے۔

سومرو کو تشویشناک حالت میں اسپتال لے جایا گیا لیکن اسپتال جاتے ہوئے راستے میں ہی انکا انتقال ہوگیا۔

کندھ کوٹ پولیس اسٹیشن کے ہیڈ محرر امداد چانڈیو کے مطابق پولیس نے مجرموں کو گرفتار کرکے سیشن عدالت میں پیش کیا تھا۔ تاہم دونوں فریقین کے درمیان معاملہ طے پاگیا اور متاثرہ خاندان نے 1.6 ملین روپے وصول کرنے کے بعد مقدمہ واپس لے لیا۔

سومرو کے کزن سعود عالم سومرو نے بتایا کہ  شاہد کے اہل خانہ نے مالی معاوضے پر معاملہ طے کر لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ علاقے کے بااثر افراد نے تجویز دی تھی کہ اس معاملے کو جرگہ کے ذریعے حل کیا جائے۔ 28 اکتوبر 2003 کو ایک جرگے نے سومرو کی بیوہ اور پانچ بچوں کو 1.65 ملین روپے ہرجانہ ادا کیا۔

لاڑکانہ پریس کلب کے صدر ظفر علی نے پی پی ایف کو بتایا کہ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ خون بہا کی رسم کی وجہ سے صحافیوں کا خون رائیگاں جاتا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ قتل ہونے والے صحافیوں کے اہل خانہ بااثر افراد کے دباؤ کی وجہ سے خون بہا قبول کرتے ہیں، اگر وہ خون بہا کو مسترد کرتے ہیں تو ان کے لیے زندہ رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔