صحافی اور پاکستان میں بڑھتا عدم تحفظ

Facebook
Twitter

گزشتہ سال، سالِ نو کے پہلے روز، یعنی یکم جنوری دو ہزار چودہ کو،  سندھ کے شہر لاڑکانہ میں شان دہار نامی شخص کو نامعلوم افراد نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔  پھر ۳۰ جنوری ۲۰۱۴ کو، مردان میں بختاج ور نامی شخص کا سر قلم کیا گیا۔   پھر دو مارچ کو ایبٹ آباد میں ابرار تنولی کو موت کے گھانٹ اتارا گیا، ۲۲ اپریل کو میانوالی میں شہزاد اقبال، ۲۸ اگست کو کوئٹہ میں عبدلارسول اور ارشاد مستوئی، ۳ اکتوبر کو حافظ آباد میں ندیم حیدر اور دو روز بعد،  ۵ اکتوبر کو اسی شہر  میں یعقوب شہزاد گولیوں کا نشانہ بنے۔  ۵ نومبر ۲۰۱۴ کو صوبہ سند کے شہر گھمٹ میں، دھرتی ٹی وی کے رپورٹر جیون آرائیں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔   جیون کی طرح، مرنے والے دیگر افراد کا تعلق بھی میڈیا سے تھا اورانہیں  صحافت کے جرم میں ہی موت کی سزا دی گئی تھی۔ جیون آرائیں کے قتل کے بعد پاکستان  میں مارے جانے والے صحافیوں کی تعداد ایک سو ہوگئی۔ اور یوں،  پاکستان ایک بار پھر ان ممالک کی فہرست میں سر فہرست رہا جو دنیا میں صحافیوں کے لئے سب سے خطرناک مانے جاتے ہیں۔

سن سو ہزار سے اب تک پاکستان میں مارے جانے والے ایک سو صحافیوں میں سے صرف ڈینیل پرل وہ صحافی ہے، جس کے قتل میں ملوث مجرمان کو سزا دی جا سکی ہے۔ باقی نناوے پاکستانی صحافیوں کے قاتلوں کو اب تک سزا سے مکمل استثنا حاصل ہے۔   چنانچہ تعجب نہیں کہ صحافیوں کے قتل اور سچائی کی جانچ کرنے والوں کی جبری خاموشی کا سلسلہ نا صرف جاری ہے، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ مرنے والوں کی تعداد میں مستقل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔  مرنے والے صحافیوں میں زیادہ تر ایسے ہیں،  جنہیں باقائدہ نشانہ بنا کر ہلاک کیا گیا۔ 

دسمبر دو ہزار تیرہ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں منظور ہونے والی ایک قرارداد کے مطابق اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ صحافیوں کے خلاف ہونے والے جرائم کو روکنے کے لئے ہر ممکن طریقہ کار استعمال کیا جائے۔ پاکستان دنیا کے ان پانچ ممالک میں بھی شامل ہے،  جہاں صحافیوں کے لئے بڑھتے  خطرات کے پیش نظر، اقوام متحدہ کے ایک ایسے ایکشن پلان کا آغاز کیا گیا ہے جو صحافیوں کے تحفط اور ان پر حملے کرنے والوں کے لئے موجود سزا سے استثنا کی فضا کو کم کرنے کی سعی کرتا ہے۔ پاکستان میں اس پلان پر دو ہزار بارہ سے کام جاری ہے۔ اسی پلان کے تحت سول سوسائٹی اور صحافیوں کے نمائندگان،بارہا حکومت اور سیاسی جماعتوں کے نمائندوں سے ملاقاتیں کر کے، انہیں حالات کی سنگینی سے آگاہ او ر صحافیوں کو انصاف دلوانے کی گزارش کر چکے ہیں۔ کہنے کو تو حکمراں جماعت سمیت سب ہی سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ صحافیوں کو تحفظ ملنا چاِہیئے۔ مگر عملا، ایسے اقدامات نہیں کیے جا رہے جن کے ذریعے صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکتا ہو۔  

حکومت کے قول و فعل میں موجود اس تضاد کو سامنے رکھتے ہوئے اور مسئلہ کے اصل حل کے لئے ، صحافیوں کے تحفظ کے لئے قائم کی جانے والے اتحاد، پاکستان کولیشن فار میڈیا سیفٹی اور اس کی رکن تنظیم، سنٹر فار پیس اینڈ ڈیویلپمنٹ انیشیٹیوز، نے نامور وکلاء کی مدد سے چند ایسی سفارشات تیار کی ہیں، جو صحافیوں کے تحظ سے متعلق پالیسی سازی میں حکومت کی مدد کر سکتی ہیں۔ تاہم، ان سفارشات کا فائدہ بھی صرف اس وقت ممکن ہے، جب، اس مسئلہ سے نمٹنے کے لئے، حکمراں جماعت مسلم لیگ نواز، اور پارلیمان میں بیٹھی دیگر جماعتیں واقعتا اس مسئلہ کا حل چاہتی ہوں۔

تاہم، گزشتہ چھہ ماہ کے دوران، سیاسی جماعتوں کا میڈیا سے رویہ دیکھا جائے تو لگتا ہے، کہ مسئلہ کے حل کے بجائے، یہ جماعتیں خود مسئلہ کا بڑاحصہ ہیں۔ اگست سے دسمبر  ۲۰۱۴ تک ملک بھر میں ہونے والے سیاسی مظاہروں اور دھرنوں کا ایک بڑا نشانہ میڈیا بھی رہا۔ انصاف کا نعرہ لگانے والی عمران خان کی پی ٹی آئی ہو، یا ایوان میں بیٹھی  مسلم لیگ ن، سیاسی مظاہروں کے دوران، دونوں ہی جماعتوں کے کارکنان نے میڈیا کو نشانہ بنایا ۔  شور مچا تو ان جماعتوں کے رہنماء یہ کہ کر بری الذمہ ہو گئے، کہ جذباتی کارکنان ان کے قابو سے باہر ہو جاتے ہیں۔  صحافیوں کی مسلسل اموات کا سوال اٹھا یا جائے تو جواب میں ملک میں پھیلے انتشار اور دہشتگردی کا حوالہ دیا جاتا ہے۔۔  ساتھ ہی،  میڈیا کے اندر موجود تفرقات بھی صحافیوں کو مزید عدم تحفظ کا شکار بناتےہیں۔   

یعنی یہ کہنا غلط نا ہوگا کہ پاکستان میں میڈیا اور صحافت پر گھات لگائی قووتوں کی جیت ہو تی دکھائی دیتی ہے۔  ٹکروں میں بٹی یونینز ہو،  ورکرز کی حفاظت کی ذمہ دارری سے مبرا مالکان، بریکنگ نیوز اور ریٹینگس کی دوڑ میں اپنے تحفظ کو فراموش کرتے صحافی، اور  ملک کے سنگین حالات  کا بہانہ بنائے،  صحافیوں کے تحفظ سے جان چھڑاتے حکمراں ۔ سب ہی صحافیوں کے لئے بڑھتے خطرات کے ذمہ دار ہیں۔  گزشتہ چودہ سالوں میں سو صحافیوں کا قتل کس نے، کس کے کہنے پر کیا؟ شکوک و شبہات تو موجود ہیں، مگر، قانونی تفتیش کے بغیر مجرم کا تعین اور جرم کی روک تھام ممکن نہیں۔ ملہ حامد میر اور سلیم شہزاد جیسے نامور صحافیوں پر ہو، تو جوڈیشل کمیشن بنا دیا جاتا ہے۔ مگر مارے جانے والے زیادہ تر صحافیوں کا کیس، ایف آئی آر کے اندراج سے آگے نہیں بڑھ پاتا۔  کسی صحافی کی موت پر شور زیادہ مچے ، تو حکومت صحافی برادری سے حالات کی بہتری اور مرنے والے کے خاندان کی مدد کا وعدہ تو کر لیتی ہے، مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے۔ ستائیس اور اٹھائیس دسمبر کو اسلام آباد میں ہونے والی ایک بین القوامی کانفرنس میں مشاورت کے بعد، پاکستان کولیشن آن میڈیا سیفٹی کی جانب سے حکومت کو موجودہ پالیسیوں میں چند ترامیم کی سفارشات پیش کی جائیں گی۔  سول سوسائٹی اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنسٹلس کے مختلف نمائندے وزیرِ اعظم نواز شریف سمیت، کئی حکومتی ارکان  سے پالیسیز میں ترامیم اور مارے جانے والے صحافیوں کے قتل کی تفتیش کے لئے  باقائدہ نظام بنانے کی ضرورت پر بات کر چکے ہیں۔   حکومتی نمائندگان زبانی کلامی ایسی پالیسیز کی حمایت بھی کر چکے ہیں۔ پاکستان کولیشن آن  میڈیا سیفٹی  نے ان سفارشات کی تیاری کے لئے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس، پاکستان براڈکاسٹنگ ایسوسی ایشن، کاوئنسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیرز ، آل پاکستان نیوز پیپرز ایسوسیشن سمیت دیگر صحافتی اور میڈیا مالکان کی تنظیموں سے مشاورت کی ہے۔    پاکستان جیسے ملک میں جہاں جمہوی نظام کو ہر ممکن مدد کی ضرورت ہے، صحافیوں پر حملے، جمہوریت پر حملوں کے مترادف ہیں۔ موجودہ حکومت کو، صحافیوں کے کرداراور اہمیت کو سمجحتے ہوئے، صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے ، صحافیوں کے قاتلوں تک پہنچنے، اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لئے تیار کی گئی ان سفارشات پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔

صدف خان