کراچی، 30 مئی: مقتول صحافی سلیم شہزاد کی بیوہ انیتا نے کہا ہے کہ “ہمیں پولیس اور حکومت سے کوئی امید ہے، نہ ہی ان پر بھروسہ کیونکہ وہ انصاف کی فراہمی میں بالکل دلچسپی نہیں رکھتے اور نہ ہی مقدمے میں کوئی پیش رفت کی گئی ہے بلکہ درحقیقت “انہوں” نے کمیشن کی تجاویز کو بھی نظر انداز کردیا ہے۔”
29 مئی 2011ء کو سلیم شہزاد وفاقی دارالحکومت سے اس وقت اغوا کرلیے گئے تھے کہ جب وہ 27 مئی 2011ء کو مہران بیس حملے سے متعلق چھپنے والی اپنی تحقیقی رپورٹ کے بارے میں گفتگو کے لیے ایک ٹیلی وژن ٹاک شو میں شرکت کے لیے جارہے تھے۔ بعد ازاں 30 مئی کو ان کی تشدد زدہ لاش اسلام آباد سے 150 کلومیٹر دور ضلع منڈی بہاؤالدین، پنجاب کے صدر پولیس اسٹیشن کی حدود میں ایک نہر میں تیرتی ہوئی پائی گئی۔
سلیم شہزاد نے سوگواروں میں بیوہ اور تین بچے، دو بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑی۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے سلیم شہزاد “ایشیا ٹائمز آن لائن” (ہانگ کانگ کی ایک خبری ویب سائٹ) کے بیورو چیف اور اطالوی خبررساں ادارے ادنکرونوس انٹرنیشنل (اے کے آئی) کے پاکستان میں جنوبی ایشیائی نامہ نگار تھے۔
مقدمے کی پیروی کرنے والے سلیم شہزاد کے برادر نسبتی اور ترک ریڈیو و ٹیلی ویژن کے نامہ نگار حمزہ امیر نے افسوس کا اظہار کیا کہ سلیم شہزاد کے قتل کو چھ سال کا عرصہ گزرجانے کے باوجود اب تک قاتلوں کا پتہ چل سکا ہے، نہ ہی واقعے کی چھان بین کے لیے بنائے گئے تحقیقاتی کمیشن کی سفارش پر عمل درآمد ہوا ہے۔
حمزہ امیر نے پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) کو بتایا کہ وہ تحقیقات میں عدم پیش رفت پر سخت مایوس ہیں اور آج، ہم سلیم شہزاد کی برسی منارہے ہیں مگر صحافی اور این جی اوز اس ظالمانہ قتل کو فراموش کرچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس نے تحقیقات کو مکمل نظر انداز کیا ہے اور صدر پولیس اسٹیشن منڈی بہاؤالدین میں تعینات ہونے والے ہر اسٹیشن ہاؤس آفیسر نے مجھے فون کرنے، پیش رفت دریافت کرنے اور ملزمان کا سراغ لگانے کے متعلق پوچھنے تک ہی اکتفا کیا مگر اب گزشتہ دو سالوں سے یہ سلسلہ بھی بند ہوچکا ہے۔
17 اکتوبر 2010ء کو ذرائع ابلاغ میں گردش کرنے والی رپورٹس کے مطابق سرکاری خفیہ ایجنسی کے حکام نے سلیم شہزاد کو اسلام آباد کے صدر دفتر میں ملاقات کے لیے طلب کیا تھا جس کا مقصد ایک روز قبل ایشیا ٹائمز آن لائن میں شائع ہونے والی رپورٹ “پاکستان نے طالبان کمانڈر کو رہا کردیا” سے متعلق بات چیت کرنا تھی۔ انہیں جان سے ماردینے کی متعدد دھمکیاں بھی موصول ہوچکی تھیں جس کے پیچھے (مبینہ طور پر) خفیہ ادارے بھی شامل تھے۔
کمیشن رپورٹ کے اختتامی ریمارکس میں کہا گیا ہے کہ سلیم شہزاد کی موت کو “دہشت گردی کے خلاف جنگ” کے تناظر میں پرکھا جانا چاہیے۔ “ریاست پاکستان، غیر ریاستی عناصر جیسا کہ طالبان اور القاعدہ، اور بیرونی عناصر” سب ہی کے پاس اس جرم کے ارتکاب کا ایک مقصد موجود ہے۔
مزید کہا گیا ہے کہ تاہم “کمیشن مجرمان کی شناخت کرنے سے قاصر ہے”۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ “موجودہ صورتحال میں سیکورٹی ایجنسیوں کے خلاف مجرمانہ الزامات کی تحقیقات ایک کٹھن کام ہے”۔