م‍قتول صحافی شان ڈاہر کے قاتل اب تک مفرور ہیں

Facebook
Twitter

2014کے آغاز پر یکم جنوری کو سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں اب تک ٹیلی ویژن چینل کے بیورو چیف, ذاکر علی – جو شان ڈاہر کے نام سے بھی معروف ہیں   -انہیں مسلح افراد نے گولی مار دی۔ انہیں مقامی اسپتال لے جایا گیا جہاں انہیں نظر انداز کیا گیا یہاں تک کہ وہ اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔ سات سال ہو چکے ہیں اور ڈاہر کے خاندان اور آزادی صحافت کی تنظیموں کی انتھک کوششوں کے باوجود صحافی ڈاہر کے قاتل آزاد پھر رہے ہیں۔

اس دوارن میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے یہ منظر دیکھا اور شان کو لاڑکانہ میں چانڈکا میڈیکل اسپتال منتقل کر دیا گیا۔صحافی کا  خون کافی مقدار میں ضائع ہوچکا تھا جس  نے طبی امداد کی محرومی کے ساتھ یکجا ہوکر، شان کو ان کی  زندگی سے محروم کردیا۔ کم و بیش نو سے دس گھنٹے بعد، اپنی آخری سانس لینے سے پہلے، انہوں نے الزام عائد کیا کہ ان پر  حملے کے پیچھے بااثر زہری خاندان کا ہاتھ تھا۔

اپنی موت سے کچھ وقت پہلے، ڈاہر نے منشیات کی فروخت پر ایک خبر نشر کی تھی۔ اس کے علاوہ، اپنی ہلاکت کے وقت تک وہ علاقے میں فارماسیوٹیکل ادویات کی غیر مجاز فروخت کے بارے میں ایک رپورٹ پر کام کر رہے تھے،  جہاں غریبوں کے لئے مقامی غیر سرکاری تنظیم کی طرف سے مختص کردہ ادویات غیر قانونی طور پر فروخت کی جارہی  تھیں۔

پی پی ایف کو اس واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے مقتول شان ڈاہر کی بہن فوزیہ ڈاہر نے بتایا کہ یکم جنوری 2014 کی آدھی رات 12:30 بجے ان کے بھائی کو ان کی پشت میں گولی ماری گئی اور انہیں چانڈکا میڈیکل کالج اسپتال لے جایا گیا تھا۔ جہاں وہ جان بوجھ کر ڈاکٹروں کی طرف سے نظر انداز کیا گیا کیونکہ شان ادویات کی غیر قانونی فروخت پر کام کر رہا تھا جو فروخت کے لئے نہیں تھیں، جس کے نتیجے میں وہ نو گھنٹے بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے صبح کے وقت دم توڑ گیا۔

فوزیہ کو یقین ہے کہ شان کو ان کے صحافتی کام کی وجہ سے قتل کیا گیا کیونکہ وہ اس وقت کئی اشتعال انگیز اسٹوریز پر کام کر رہے تھے اور گولی مارے جانے سے قبل انہیں دھمکیاں بھی موصول ہوئی تھیں۔

CMCH میں اس نو گھنٹے کے وقت کے دوران جو انہوں نے یہاں گذارا، شان اپنے دوستوں اور اہل خانہ کو ٹیلی فون پر مطلع کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ عامر زہری اور عرفان زہری نے اسے پشت سے گولی ماری ہے۔ بہن کا کہنا تھاکہ مقامی طاقتور بااثر افراد کے سیاسی اثرورسوخ کی وجہ سے پولیس اصل قاتلوں کو گرفتار کرنے سے گریزاں تھی۔

فوزیہ نے بتایا کہ پولیس نے قتل کے بعد دو اہم مشتبہ ملزمان کے سِوا، 20 سے زائد افراد کو گرفتار کیا تھا لیکن بعد میں ان سب کو بھی رہا کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے قاتلوں کی گرفتاری یقینی بنانے اور شان کے بچوں کو 10 لاکھ روپے معاوضہ اور نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن یہ وعدہ تاحال وعدہ ہی ہے۔

 

حسب دستور،  یہ کیس بھی گزشتہ سال پہلے کی طرح بغیر کسی مناسب فیصلے کے بند کر دیا گیا۔  میں اب بھی انصاف کی تلاش میں ہوں اور بغیر کسی دباؤ کے دوبارہ تحقیقات کا مطالبہ کرتی ہوں، فوزیہ نے پی پی ایف کو حالیہ بات چیت کے دوران بتایا۔

ظفر ابڑو، صدر لاڑکانہ پریس کلب نے شان کو “صحافیوں کی علامت” کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شان پیشہ ور، پرجوش اور محنتی صحافی تھے۔ انہوں نے علاقے میں بہت سے صحافیوں کو تربیت دی۔ اندرون سندھ کے صحافی شان کی قربانی کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔

سندھ کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس کی جانب سے پیش کی گئی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں ظاہر کیا گیا ہے کہ ڈاہر پر ٹارگٹ حملہ  نہیں کیا گیا بلکہ یہ سال نو کی تقریبات کے دوران آوارہ فائرنگ کا نتیجہ تھا۔ لیکن ڈاہر کے اہل خانہ اور صحافی ساتھیوں کا پختہ یقین ہے کہ شان کا قتل ایک مقامی ہسپتال میں این جی اوز کی طرف سے عطیہ کردہ ادویات کی غیر قانونی فروخت پر کی جانے والی اسٹوریوں کی وجہ سے کیا گیا تھا۔

ڈاہر کے بہنوئی ریاض حسین خشک نے 24 فروری 2014 کو سندھ پولیس کے ڈی آئی جی کو کیس کی دوبارہ تفتیش کے لیے درخواست جمع کرائی۔

CMCH کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کی طرف سے قائم کردہ تحقیقاتی کمیٹی کے نتیجے میں، 12 مئی 2014 کو صوبہ سندھ کے اس وقت کے چیف سیکریٹری سجاد سلیم ہوتیانہ نے رورل ہیلتھ سینٹر بڈھ کے انچارج ڈاکٹر عبدالغفار کاندھرو اور سی ایم سی ایچ کے لاڑکانہ سرجری ڈیپارٹمنٹ کے سینئر میڈیکل آفیسر ڈاکٹر علی گوہر چانڈیو کو شان ڈاہر کے علاج میں غفلت برتنے پر معطل کردیا۔

اہل خانہ اور صحافیوں کی مسلسل کوششوں کے بعد 19 اپریل 2016 کو اس وقت کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس (ڈی آئی جی) لاڑکانہ عبداللہ شیخ نے کیس کی دوبارہ تفتیش کے لیے تحریری احکامات جاری کیے اور ایک ٹیم تشکیل دی جس میں سپرنٹنڈنٹ  پولیس (ایس پی) توقیر نعیم، انسپکٹر یار محمد رند، انسپکٹر شبیر احمد شیخ، اور اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سجاد احمد بھٹی شامل تھے۔

19 مئی 2017 کو پاکستان پریس فاؤنڈیشن اور ڈاہر کی بہن فوزیہ سلطانہ پر مشتمل ایک وفد نے محکمہ داخلہ سندھ کے سیکریٹری جناب قاضی شاہد پرویز سے ملاقات کی تاکہ از سر نو اور مکمل طور پر آزادانہ تفتیش اور مجرموں کی سزا کی درخواست کی جائے۔ ان کے حکم پر، تفتیش کو سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) دادو، حیدرآباد رینج شبیر احمد سیٹھار کے ماتحت ایک نئے دائرہ اختیار میں منتقل کر دیا گیا۔

بدقسمتی سے کیس کی تحقیقات اور دوبارہ تفتیش کے باوجود شان کے قاتل تاحال مفرور ہیں