پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) طالبان کے ہاتھوں اغوا ہونے بعد ایک فضائی حملے میں بچھڑ جانے والے مرحوم صحافی عبدالعزیز شاہین کو یاد کر رہی ہے۔

Facebook
Twitter

29 اگست، 2008 کو، مقامی اخبارات آزادیؔ اور خبرکارؔ کے لیے کام کرنے والے ایک صحافی، عبدالعزیز شاہین، خیبر پختونخوا کی وادی سوات میں طالبان کے ایک ٹھکانے پر جیٹ فائٹرز کے ایک حملے میں، جہاں وہ طالبان کے پاس یرغمال تھے، مارے گئے تھے۔

35 سالہ صحافی نے اپنے پیچھے ایک بیوہ، تین بیٹے اور ایک بیٹی کو چھوڑا  ہے۔

پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) طالبان کے ہاتھوں اغوا ہونے بعد ایک فضائی حملے میں بچھڑ جانے والے مرحوم صحافی کی زندگی کو یاد کر رہی ہے۔

تیرہ سال بعد، پی پی ایف سے گفتگو کے دوران شاہین کے بیٹے عنایت اللہ نے انہیں یاد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والد کا کسی کے ساتھ کوئی ذاتی تنازعہ نہیں تھا۔ انہوں نے بتایا کہ بطور صحافی ان کے والد آزادیؔ کے لیے کام کرتے تھے جہاں وہ علاقے میں ہونے والی سرگرمیوں خصوصا تحریک طالبان پاکستان  (ٹی ٹی پی) کے بارے میں رپورٹنگ کیا کرتے تھے۔

 اس واقعے کی کوئی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج نہیں کی گئی تھی ۔

اگست 2008 میں شاہینؔ ایک ہفتہ پہلے اپنی گاڑی کو آگ لگانے ک ذمہ دار کے بارے میں جاننے کے لئے تحقیقات کے سلسلے میں سوات کی تحصیل مٹہ کے علاقے پیوچار گئے تھے۔ اس وقت جب کہ وہ مقامی لوگوں سے بات کر رہے تھے، مقامی طالبان نے انہیں اغوا کر لیا اور طالبان کی ایک نجی جیل میں انہیں قید کر دیا۔

طالبان کے ترجمان مسلم خان نے میڈیا کو بتایا تھا کہ جس کمپاؤنڈ میں شاہین کو قید میں رکھا گیا تھا اس پر ایک جیٹ فائٹر نے حملہ کیا تھا اور یہ صحافی اس حملے میں مبینہ طور پر ہلاک ہونے والے 20 سے زائد افراد میں شامل تھے۔

اُن کے ساتھیوں کا کہنا تھا کہ شاہین ایک بہادر اور جرات مند صحافی تھے اور طالبان اپنی سرگرمیوں کے بارے میں ان کی لکھی گئی متعدد رپورٹس کی وجہ سے ناراض تھے۔

مقتول صحافی کو یاد کرتے ہوئے آزادیؔ کے چیف ایڈیٹر ممتاز احمد نے پی پی ایف کو بتایا کہ طالبان نے شاہین کو ان کی لکھی گئی اسٹوریز کی وجہ سے اغوا کیا تھا جو طالبان گروپس کے بارے میں تھیں۔ شاہین نے مٹہ علاقے میں ان کی تمام سرگرمیوں کے بارے میں رپورٹ کی جہاں ان کی رہائش تھی۔

احمد نے کہا کہ شاہین ٹی ٹی پی کے بارے میں پختہ رائے رکھتے تھے اور ان کی سرگرمیوں کے بارے میں وسیع معلومات رکھتے تھے، ٹی ٹی پی کے ایک کمانڈر نے انہیں متعدد بار دھمکایا تھا ایک دن شاہین کو اغوا کر کے قید کر لیا گیا اور جب فضائی حملہ ہوا تو وہ جاں بحق ہو گئے۔

شاہین کے ایک قریبی دوست زبیر نے انہیں یاد کرتے ہوئے بتایا کہ مرحوم صحافی بہت پرجوش اور اپنے کام سے بہت مخلص تھے۔ زبیر نے کہا کہ کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی کیونکہ شاہین مسلح افواج کے آپریشن میں ہلاک ہوئے۔

سوات پریس کلب کے صدر فیاض ظفر نے پی پی ایف کو بتایا کہ شاہین کی موت اس کے کام کی وجہ سے ہوئی تھی جس میں ٹی ٹی پی کے بارے میں لکھنا شامل تھا جس نے انہیں اغوا کیا جس کی وجہ سے ایک فضائی حملے میں ان کی حادثاتی موت واقع ہوئی.

 

 Translation