پی پی ایف مقتول صحافی حاجی عبدالرزاق سربازی کی یاد منا رہا ہے

Facebook
Twitter

آٹھ سال قبل 21 اگست 2013 کے اس بدنصیب دن لاپتہ صحافی حاجی عبدالرزاق سربازی کی لاش کراچی میں پائی گئی تھی۔ بلوچی زبان کے اخبار ڈیلی توار کے کاپی ایڈیٹر عبدالرزاق 24 مارچ 2013 سے شہر سے لاپتہ تھے۔

پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) سے بات کرتے ہوئے سعیدہ سربازی نے کہا کہ ان کے بھائی نے کبھی اس بارے میں کچھ نہیں بتایا کہ انہیں اپنے کام کے سلسلے میں دھمکیاں مل رہی تھیں یا نہیں۔

سعیدہ نے اپنے بھائی کی حیثیت لاش کی شناخت اس کے کپڑوں سے کی تھی، جو وہ گمشدگی کے وقت پہنے ہوئے تھا، اور اس کے پیروں سے، کیونکہ یہ اس کے جسم کا واحد حصہ تھا جو شناخت کے قابل تھا۔

لاش کراچی کے مضافات میں سرجانی ٹاؤن تھانے کی حدود سے ملی تھی۔ بلوچ کے اہل خانہ نے پولیس کو مورود الزام ٹھہراتے ہوئے کہا، عدالتوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور قومی پریس سے رجوع کرنے کے باوجود وہ 21 اگست تک اس کا اتہ پتہ جاننے کے بارے میں کوئی سراغ نہیں پا سکے۔

اس کی بہن نے کہا کہ بلوچ ایک لِکھاری (مصنف) تھا اور اس کا عسکریت پسندی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

روزنامہ توار، جس کا صدر دفتر کوئٹہ میں ہے، بلوچ نواز قوم پرست اخبار تھا جو صوبہ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کے لیے آواز اُٹھانے کا کام کرتا ہے۔ یہ اخبار ان گروہوں اور حکومت کے درمیان متعدد تنازعات کی کوریج کے لیے معروف تھا۔

آج آٹھ سال کے بعد بھی بلوچ کی موت کے سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ پی پی ایف سے بات کرتے ہوئے، سرجانی ٹاؤن پولیس اسٹیشن کے سینئر انویسٹی گیشن آفیسرنے کہا کہ اس کیس کو کیٹیگری-اے کے ایک کیس کے طور پر نشان زد کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ کسی بھی ملزم کو گرفتار نہیں کیا گیا اور اس کیس کو اس وقت تک کے لئے بند کر دیا گیا تھا جب تک کہ مقتول کے اہل خانہ کسی کو نامزد نہ کریں یا کوئی رضاکارانہ طور پر جرم کا اعتراف کرلے۔

عبدالرزاق کی بیوی فریدہ نے پی پی ایف کو بتایا کہ وہ اس کیس میں شکایت کنندہ تھیں لیکن جب بھی وہ تھانے جاتی تھیں، حکام نے انہیں کہتے کہ کسی کو ملزم نامزد کریں ورنہ بصورت دیگر انہیں کیس بند کرنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ ان کے شوہر کا کسی کے ساتھ کوئی ذاتی تنازعہ نہیں ہے۔ فریدہ نے کہا کہ وہ انصاف کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور انہوں انصاف کے حصول کے لیے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا لیکن حکومت یا تنظیموں، کسی نے بھی ان کے ساتھ تعاون نہیں کیا۔

فریدہ نے بتایا کہ انہیں تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ پیچھے ہٹ جائیں کیونکہ اس واقعہ کی پشت پر بااثر لوگ ہو سکتے ہیں۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے صدر شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ اس کیس میں کسی بھی ملزم کو تا حال گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔

ذوالفقار نے کہا کہ وہ ہمیشہ انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن کچھ بااثر افراد کی شمولیت حکام کو مجرموں کو گرفتار کرنے سے روکتی ہے۔

“یہ بدقسمتی ہے کہ ہمیں ابھی تک آزادیِ اظہار کا حق حاصل نہیں،” ان کا یہ کہنا تھا۔

کراچی پریس کلب کے سیکرٹری جنرل رضوان بھٹی نے پی پی ایف کو بتایا کہ عبدالرزاق پریس کلب کا رکن نہیں تھے مگر انہوں نے پھر بھی حکام سے اس قتل کے خلاف فوری کارروائی کرنے اور ملزمان کی گرفتاری کے لئے مطالبہ کیا تھا۔

بھٹی نے کہا کہ صحافیوں کے حوالے سے بہت سے دیگر کیسز میں ملزمان کو استثنیٰ (چُھوٹ) حاصل ہے۔