‫مقتول صحافی رزاق گل کے اہل خانہ پانچ سال سے انصاف کے منتظر

Facebook
Twitter

کراچی، 18 مئی: پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے شہر تربت میں ایکسپریس نیوز ٹی وی کے ضلعی نامہ نگار مقتول صحافی رزاق گل  کے مقدمہ  میں ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں   ہو سکی ، پانچ سال کا طویل عرصہ گزرجانے  کے باوجود پولیس کسی بھی حملہ آور کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی ہے۔

رزاق گل کے بھائی عالم گل نے پاکستان پریس فاؤنڈیشن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “میرے بھائی کے قاتل آزاد گھوم رہے ہیں اور  ہم طویل عرصے سے انصاف کے منتظر ہیں اور اس ضمن میں اب تک کوئی بھی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے”۔

تربت کے ڈپٹی کمشنر شیر جان نے کہا کہ رزاق گل کے قتل کے ایک سال بعد ورثاء کو 4  لاکھ روپے معاوضہ اداگئ کی جا چکا ہے،تاہم اب تک کوئی بھی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جا سکی ۔

تربت پولیس کے مطابق  قتل کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا تھا  تاہم      وہ اب تک کسی بھی قاتل کو گرفتار نہیں کر سکی۔

قریبی  دوستوں کے مطابق رزاق گل نے 10 سال تک  مقامی سیاسی خبریں رپورٹ کی  اور تربت پریس کلب کے جنرل سیکریٹری بھی  رہے۔ انہیں 18 مئی 2012ء کو اپنے گھر کے قریب سے اغوا ءکیا گیا اور بعدازاں 19 مئی 2012ء کو تربت میں پرانے سول ہسپتال اور سنگائی سر کے نزدیک ان کی گولیوں سے چھلنی لاش ملی۔

رزاق گل کے سینے اور سر پر 15 گولیاں ماری گئیں جبکہ جسم پر شدید تشدد کے نشانات بھی موجود تھے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پوسٹ مارٹم کے لیے ان کی لاش اسپتال منتقل کردی جہاں ان کے بھائی نے مقتول کی شناخت کی۔

ان کے بھائی  نے میڈیا  کو بتایا کہ رزاق گل 18 مئی کی شام اہل خانہ کو بتائے  بغیر گھر سے روانہ ہوئے تاہم واپس نہ لوٹنے پر خاندان نے ان کی تلاش شروع کردی۔ مقتول کے ورثاء کا خیال ہے کہ رزاق گل کو تربت میں گھر کے قریب سے اغوا ءکیا گیا تھا۔ رازق گل کے قتل کا مقدمہ نمبر 43/2012  تربت پولیس اسٹیشن میں نامعلوم افراد کے خلاف درج ہےتاہم وہ اب تک کسی بھی ملزم کی شناخت یا گرفتاری نہیں کرسکی۔

دوسری جانب پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سینئر نائب صدر سلیم شاہد نے پی پی ایف کو بتایا کہ صوبہ بلوچستان میں امن و امان کی ابتر صورتحال کے باعث  میڈیا  سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد، بشمول صحافی، قتل کیے جاچکے ہیں البتہ اب تک کسی بھی ملزم کو  سزا نہیں دی گئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد کے قتل پر نامعلوم ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کی جاتی ہے تاہم بعض اوقات  مقتولین کا مقدمہ درج  بھی نہیں ہوپاتا۔

پی پی ایف کی تحقیق کے مطابق بلوچستان میں جاری عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے باعث2008ء  سے اب تک صحافیوں سمیت 14 میڈیا ورکرز  اپنی  ذمہ داریاں سر انجام دیتے ہوئے  مارے جا چکے ہیں۔

Translation