PPF pays tribute to journalist Muhammad Arif killed in the 2007 Karsaz blasts

On October 18, 2007, twin suicide bomb blasts rocked a crowded procession to welcome former Prime Minister Benazir Bhutto upon her return to Karachi, Pakistan after eight years of self imposed exile. The explosions killed at least 200 people and injured over 500 others.

ARY One World television channel cameraman Muhammad Arif was amongst those killed in the deadly blasts.

A number of other journalists were also injured and had to be treated for shrapnel wounds.

Arif lost his life while working on the frontlines and Pakistan Press Foundation (PPF) pays tribute to his work on the fourteenth anniversary of his death. Arif’s death and the numerous journalists injured in the blasts are a reminder of the need for media organizations to provide their staff with the necessary safety equipment, to carry out risk assessments before sending staff to a location and ensuring that the safety of their reporters is the first priority.

Before the fateful incident Arif had been transferred to ARY’s London office and had delayed his departure to cover Bhutto’s arrival.

ARY News Bureau Chief Ahsan Shakeel said that Arif was in a DSNG van with reporters and crew members to cover Bhutto’s rally when the first blast took place. He said that Arif then went to the site of the incident with his camera, when the second blast occurred and led to his death.

“He was a very hardworking and passionate individual,” said Shakeel, adding that the news organization had provided Arif’s family with a monthly salary, a flat and other essentials as well as a job for his son as a desk coordinator.

Shakeel noted that all basic security measures for the team had been provided on that day, however, he advised journalists to keep safety first while on duty.

Arif’s son, Junaid Arif, said that while no one from the family knows the status of the case, a collective first information report (FIR) had been registered.

“Fourteen years have passed since the incident took place, and even though it is a high profile case, it has not yet been investigated,” he said, expressing serious disappointment in the government’s seriousness towards such cases.

According to Dawn, since 2008, three inquiry committees had been set up to trace those behind the attack but had not made any progress.

Senior journalist Naeem Sahoutara told PPF that the police and allied agencies are still clueless about the perpetrators of the twin bomb attacks.

Injured Journalists

A number of other journalists were also injured and had to be treated for shrapnel wounds.

CNBC cameraman Shahzad Ismail was critically injured with shrapnel wounds that resulted in the removal of his spleen and damage to his liver and stomach. His right hand was fractured in many places. He was admitted to the intensive care unit and put on a respirator.

CNBC reporter Salman Farooq received shrapnel wounds on his right thigh that damaged his nerves as a result of which his knee cap was damaged and he lost the use of his leg.

Dawn News cameraman Abid Hussain was seriously injured with shrapnel wounds in his stomach and legs.

A reporter associated with the Electronic News Gathering (ENG) service of the state-owned Associated Press of Pakistan (APP) Rashid Ali Panhwar underwent surgery for removal of a six inch shrapnel from his abdomen.

APNA television channel reporter Shahid Anjum was hospitalized for injuries on his head.

Daily Khabrain reporter and member of the executive committee of Karachi Union of Journalists (KUJ) Siddique Chaudhry had to be hospitalized for multiple bone fractures on his thigh.

APP Deputy Controller of Electronic News Gathering (ENG) Haroon Rashid Toor received two pellets in his leg. He received first aid treatment at the hospital. Toor was based in Islamabad and had come to Karachi to cover the rally.

A photographer with the daily Jurrat and Reuters Syed Athar Hussain received first aid treatment at the hospital for injuries to his head and back.

 

Ends/ PPF

پی پی ایف 2007 کے کارساز دھماکوں میں ہلاک ہونے والے صحافی محمد عارف کو خراج تحسین پیش کرتی ہے

اکتوبر 18، 2007 کو ، کراچی میں دو خودکش بم دھماکوں نے سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی آٹھ سالہ خود ساختہ جلاوطنی کے بعد کراچی ، پاکستان واپسی پر ان کے استقبال کے لیے آنے والے ایک پُرہجوم جلوس کو دہلادیا۔ دھماکوں میں کم از کم 200 افراد  ہلاک اور 500 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔

اے آر وائی ون ورلڈ ٹیلی ویژن چینل کے کیمرہ مین محمد عارف ان مہلک دھماکوں کے ہلاک شدگان میں شامل تھے۔

 دھماکوں کے نتیجے میں متعدد دیگر صحافی بھی زخمی ہوئے تھے اور انہیں چَھرّوں (بم کے ٹکڑوں) سے آنےوالے  زخموں کا علاج کروانا پڑا۔

عارف فرنٹ لائنز پر کام کرتے ہوئے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) ان کی وفات کی چودھویں برسی پر ان کے کام کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ عارف کی ہلاکت اور دھماکوں میں متعدد صحافیوں کا زخمی ہونا اس امر ِضروری کی یاد دہانی کرتاہے کہ میڈیا کے اداروں کا اپنے عملے کو ضروری حفاظتی سامان مہیا کرنا، عملے کو کسی مقام پر بھیجنے سے پہلے خطرات  کا جائزہ لینا اور اپنے رپورٹرز کی حفاظت کو یقینی بنانا اولین ترجیح ہے۔

اس اندوہناک  واقعے سے پہلے عارف کا تبادلہ اے آر وائی کے لندن دفتر ہوگیا تھا اور محترمہ بھٹو کی آمد کی کوریج کرنے کے لیے ان کی روانگی کو مؤخر کیاگیا تھا۔

اے آر وائی نیوز کے بیورو چیف احسن شکیل نے کہا کہ جب پہلا دھماکہ ہوا اس وقت  عارف صحافیوں اور عملے کے ارکان کے ساتھ محترمہ بھٹو کی ریلی کو کور کرنے کے لیے ڈی ایس این جی وین میں تھے۔ انہوں نے بتایا کہ پھر عارف  مع ان کے کیمرے کے  جائے حادثہ پر چلے گئے، اس وقت دوسرا دھماکہ ہوا جس سے وہ جاں بحق ہوگئے۔

شکیل نے کہا کہ “وہ بہت محنتی اور پُرجوش شخص تھا ،” اور مزید بتایا کہ نیوز آرگنائزیشن نے عارف کے اہل خانہ کو ماہانہ تنخواہ ، فلیٹ اور دیگر ضروریات کے ساتھ ساتھ ان کے بیٹے کو بطور ڈیسک کوآرڈینیٹر نوکری بھی فراہم کی تھی۔

شکیل نے بتایا کہ اس دن ٹیم کے لیے تمام تر بنیادی حفاظتی انتظامات فراہم کر دیےگئے تھے، تاہم، انہوں نے صحافیوں کو دوران ڈیوٹی  پہلے خود کو محفوظ رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔

عارف کے بیٹے جنید عارف نے بتایا چونکہ اہل خانہ میں سے کوئی بھی کیس کی کاروائی کے بارے میں نہیں جانتا، ایک اجتماعی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی گئی تھی۔

اس طرح کے معاملات کے بارے میں حکومت کی سنجیدگی پر شدید مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا، “اس واقعے کو گزرے چودہ سال بیت چکے ہیں اور ایک ہائی پروفائل کیس ہونے کے باوجود ابھی تک اس کی تحقیقات نہیں ہوئی ہیں۔”

ڈان کے مطابق، 2008 کے بعد سے، اس حملے کے پیچھے ملوث افراد کا سراغ کے لئے تین انکوائری کمیٹیاں قائم کی گئی تھیں، لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

سینئر صحافی نعیم سہوترا نے پی پی ایف کو بتایا کہ پولیس اور اس سے وابستہ ایجنسیاں اب تک دوہرے  بم حملوں کے مجرموں کے بارے میں لاعلم ہیں۔

زخمی صحافی

سی این بی سی کے کیمرہ مین شہزاد اسماعیل بھی چَھرّوں کے زخموں سے شدید زخمی ہوئے تھے جس کے نتیجے میں ان کی تِلی نکال دی گئی اور ان کے جگر اور معدے کو نقصان پہنچا۔ ان کا دایاں ہاتھ کئی جگہوں پر سے  ٹوٹ گیا تھا۔ انہیں انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں داخل کیا گیا اور آلہ ِتنفس پر رکھا گیا تھا۔

سی این بی سی کے رپورٹر سلمان فاروق کو ان کی دائیں ران پر چَھرّوں سے زخم آئے تھے جس نے ان کے اعصاب کو مجروح کیا جس کے نتیجے میں ان کے گھٹنے کی ہڈی کو نقصان پہنچا اور وہ اپنی ٹانگ کا استعمال کرنے سے محروم ہوگئے۔

ڈان نیوز کے کیمرہ مین عابد حسین پیٹ اور ٹانگوں میں چَھرّوں کے زخموں سے شدید زخمی ہوئےتھے۔

سرکاری ملکیت ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کی الیکٹرانک نیوز گیدرنگ (ای این جی) سروس سے وابستہ ایک رپورٹر راشد علی پنھوَر کے پیٹ سے چھ انچ کا بم کا ٹکڑا نکالنے کے لیے ان کی سرجری کروائی گئی۔

اپنا ٹیلی ویژن چینل کے رپورٹر شاہد انجم کو سر پر زخم آنے کی وجہ سے ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔

روزنامہ خبریں کے رپورٹر اور کراچی یونین آف جرنلسٹس (KUJ) کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن صدیق چوہدری کو ان کی ران کی کئی ہڈیوں کے ٹوٹنے کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہونا پڑا تھا۔

اے پی پی کے ڈپٹی کنٹرولر الیکٹرانک نیوز گیدرنگ (ای این جی) ہارون رشید طُور کو ان کی ٹانگ میں دو چھرّے لگے۔ انہوں نے ہسپتال میں ابتدائی طبی امداد حاصل کی۔ طُور اسلام آباد میں متعین تھے اور ریلی کی کوریج کے لیے کراچی آئے تھے۔

روزنامہ جُرّات اور رائٹرز کے لئے کام کرنے والے ایک فوٹوگرافر سید اطہر حسین کو سر اور کمر پر آنے والے زخموں کے باعث ہسپتال میں ابتدائی طبی امداد فراہم کی گئی۔