نو سال پہلے فرنٹ لائن پر بچھڑ جانے والے ایک صحافی مشتاق کھنڈ کی یاد میں

Facebook
Twitter

7 اکتوبر، 2012 کو صوبہ سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے خیرپور میں نکالی جانے والی ایک ریلی پر دس مسلح افراد  نے فائرنگ کی۔ ڈان کے مطابق اس فائرنگ سے کم از کم چھ افراد ہلاک اور چار دیگر زخمی ہوئے تھے۔  دھرتی ٹی وی کے نامہ نگار مشتاق کھنڈ زخمیوں میں شامل تھے اور بعد ازاں اپنے کنپٹی اور ٹانگ کے مہلک زخموں کے باعث دم توڑ گئے تھے۔

روزنامہ عوامی آواز کے نمائندے مختیار پُھلپوٹو، روزنامہ نَئون سِج کے نمائندے فہیم منگی اور فری لانس صحافی اللہ داد رِند سمیت دیگر صحافی زخمی بھی ہوئے تھے۔

پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) فرنٹ لائن پر کام کرنے والے صحافیوں کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتا ہے جنہوں نے اپنے فرض کے لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈال دیا۔ کھنڈ کی ہلاکت کے ساتھ دیگر صحافیوں کے زخمی ہونے کے اس واقعے نے فیلڈ میں کام کرنے والے میڈیا کے افراد کے لیے مناسب حفاظتی سامان کے ساتھ ساتھ خطرے والے علاقوں سے یا ہنگامی حالات میں رپورٹنگ کے لیے ضروری تربیت کی ضرورت کی اہمیت کو اُجاگر کیا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ میڈیا کے ادارے اپنے رپورٹرز کو ضروری حفاظتی سامان مہیا کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ زیادہ پُرخطر علاقوں سے محفوظ طور پر کام کر رہے ہوں۔

پُھلپوٹو کو ان کے بازو پر ایک گولی لگی جس نے ان کے بازو کو ناکارہ بنادیا۔

منگی کو کمر میں دو گولیاں لگیں، ایک اس کے جسم کے پار ہوگئی جبکہ دوسری کو ایک آپریشن کے ذریعے نکال دیا گیا۔ انہوں نے پی پی ایف کو بتایا کہ حملہ اچانک ہوا تھا اور اس کی وجہ سیاسی دشمنی تھی۔ انہوں نے کہا کہ وہ دو ماہ زیر علاج رہے  تھےمگر نہ تو خود انہیں اور نہ ہی اس علاقے کے کسی دوسرے رپورٹر کو کوریج کے لیے کوئی حفاظتی سامان مہیا کیا گیا تھا۔

پی پی ایف سے بات کرتے ہوئے خیرپور تھانے کے ہیڈ محرر غلام نبی نے بتایا کہ حملہ آور جلسہ گاہ میں داخل ہوئے اور انہوں نے پی پی پی رہنما نفیسہ شاہ کے ریلی سے خطاب کرنے سے پہلے ہی فائرنگ کر دی تھی۔

14 اکتوبر، 2012 کو مرکزی ملزم عزیز اللہ جنویری کو پنجاب کے شہر بہاولپور سے گرفتار کیا گیا اور تفتیش کے لیے سکھر کے باگرجی تھانے منتقل کر دیا گیا۔ تاہم، صرف چند ہفتوں بعد، 30 اکتوبر کو، ملزم سعداللہ جنویری اور اس کے ساتھیوں نے عزیز اللہ کی رہائی کے لیے تھانے پر حملہ کیا۔ فائرنگ کے تبادلے کے دوران عزیز اللہ مارا گیا اور حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

2014 میں سعد اللہ کو لاہور سے گرفتار کیا گیا۔ ایک اور ملزم مجاہد علی کو گرفتارکیا گیا اور دونوں کو سکھر کی مرکزی جیل بھیج دیا گیا تھا۔

مقدمہ انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت میں پیش کیا گیا تھاجہاں عدالت میں پیش کی گئی پولیس تحقیقاتی رپورٹ میں دیگر ملزمان کو بے گناہ قرار دیا گیا تھا۔ سعد اللہ اور مجاہد علی اب تک زیر حراست ہیں اور کیس اب بھی چل رہا ہے۔