پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور پولرائزیشن آزادی صحافت اور میڈیا کے تحفظ پر حملوں کا باعث بن رہا ہے۔ پاکستان پریس فاؤنڈیشن‎‎

Facebook
Twitter

پاکستان 2022-23 کے دوران سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال کا شکار رہا ہے، جس کی وجہ سے سیاسی ماحول اور پولرائزیشن (تَقطِيب) میں اضافہ ہوا ہے۔ بدقسمتی سے اس کے نتیجے میں ملک میں میڈیا کے تحفظ اور پریس کی آزادی پر حملے ہوئے ہیں۔

سیاسی پولرائزیشن اور غیر یقینی صورتحال پاکستان میں میڈیا کے تحفظ کو متاثر کرتی ہے ۔ آزادی صحافت کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان پریس فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ، پاکستان میں آزادی صحافت اور میڈیا کی حفاظت 2022-2023: محدود مواد، جسمانی تشدد اور بھرپور بیان بازی،  کایہ  اہم  انکشاف ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح میڈیا نے سیاسی ریلیوں پر جسمانی حملوں، مقدمات کے اندراج اور صحافیوں کی گرفتاریوں، تنقید کرنے والے صحافیوں پر حملوں کے لیے استعمال کی جانے والی بیان بازی اور ریاست کی جانب سے مسلط کردہ قواعد و ضوابط کے ذریعے سیاسی ہلچل کے اثرات کو براہ راست محسوس کیا ہے۔

جانبدارانہ سیاست کے ماحول نے میڈیا کو حملوں کی زد میں رکھا ہے، جس کے نتیجے میں صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز پر جسمانی حملوں کے کم از کم 72 واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں، جن میں صحافیوں کے قتل کے دو واقعات، بدسلوکی یا زخمی ہونے کے 62 واقعات، اغوا یا اٹھائے جانے کے تین واقعات، چھاپوں کے تین واقعات اور حراست کے دو واقعات شامل ہیں۔ کم از کم 20 واقعات میں صحافیوں کو دھمکیاں دی گئیں اور آن لائن صحافیوں کو ٹرولنگ(جارحانہ مواد پوسٹ کرنے) ، ہراساں کرنے اور بدسلوکی کا سلسلہ بھی جاری رہا۔

اکتوبر 2022 میں ایک ریلی کی کوریج کے دوران چینل 5 کی رپورٹر صدف نعیم کی موت نے سیاسی ریلیوں، انتخابات اور دیگر مقامات سمیت زمینی سطح پر صحافیوں کے لئے حفاظتی اقدامات کی بدقسمت کمی کو اجاگر کیا۔ نعیم اور کینیا میں قتل ہونے والے ایک اور صحافی ارشد شریف کی موت پاکستان میں میڈیا کے تحفظ کی جانب ایک اہم موڑ کے طور پر کام کرے گی۔ تاہم حال ہی میں قومی میڈیا کے لیے اعلان کردہ ضابطہ اخلاق اور الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے سیاسی جماعتوں کے لیے جاری کردہ ضابطہ اخلاق مبہم اور گول مول سے  ہیں جن میں میڈیا کی حفاظت کے لیے واضح اقدامات کا فقدان ہے۔

صحافیوں کو اپنے کام کی وجہ سے گرفتاریوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے، جن میں اینکر پرسن عمران ریاض خان، جنہیں گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران دو بار گرفتار کیا گیا، اور بول نیوز کے صحافی شاہد اسلم، جنہیں ایک سابق آرمی چیف کے بارے میں معلومات لیک کرنے کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اسلم کی گرفتاری میں ان کے پاس ورڈ کا مطالبہ اور ان کے الیکٹرانک آلات کاضبط کیا جانا ان کی آزادانہ طور پر اپنا کام کرنے کی صلاحیت کی براہ راست خلاف ورزی ہے، جو ایک ایسے کلچر کی نشاندہی کرتی ہے جہاں صحافیوں کے تحفظ کے قوانین کی کھلے عام خلاف ورزی کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح اے آر وائی نیوز کے سربراہ عماد یوسف کو بغیر وارنٹ کے گرفتار کیا گیا اور ان کے خلوتی (پرائیویسی) حقوق کی خلاف ورزی کی گئی۔ یہ واقعات پاکستان میں صحافیوں کے بہتر تحفظ کی ضرورت کو ظاہر کرتے ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ نے 20 مارچ کو بغاوت سے متعلق پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعہ 124 اے  کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

سیاسی درجہ حرارت بلند ہونے کے باعث بہت سی ریلیاں اور مظاہرے ہوئے۔ جیسے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اپنی پارٹی کے چیئرمین کو ملک کے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے کے خلاف احتجاج کیا تو ان مواقع پر  میڈیا ہراسانی اور جسمانی حملوں کا نشانہ بنا۔ اپریل اور مئی 2022 میں متعدد صحافی زخمی ہوئے اور مختلف نیٹ ورکس کی ڈی ایس این جی وین کو نقصان پہنچا۔

دریں اثنا، پاکستان میں پاکستان کی دو اہم سیاسی جماعتوں – پی ٹی آئی اور پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل-این) کے رہنماؤں کی جانب سے سیاسی بیان بازی نے صحافیوں کو مزید بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔ میڈیا پروفیشنلز  پر بے بنیاد یا غیر تصدیق شدہ الزامات لگا کر، ان کو ٹرول، ہراساں کرنے اور بدنام کرنے کو سیاسی شخصیات جائز قرار دیتی ہیں۔

وزیر اعظم کی حیثیت سے عمران خان نے کچھ صحافیوں کو مافیا اور بلیک میلر قرار دیا تھا۔ ملک کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے اس طرح کے بے بنیاد دعوے خطرناک ہیں اور پہلے ہی  حملوں کی زد میں رہنے والے میڈیا کے خلاف آگ کو ہوا دیتے ہیں۔ دریں اثنا مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے متعدد مواقع پر اپنے رویے کا صاف اظہار کیا، جیسے پریس کانفرنس کے دوران اے آر وائی نیوز کا مائیکروفون ہٹا نا یا ارشد شریف کے قتل کے بعد ایک سفاک  ٹویٹ کو دوبارہ شیئر کرنا۔

ایک ایسے وقت میں جب سیاسی تقسیم عروج پر ہے، سیاسی قیادت کا ناروا رویہ میڈیا کے تحفظ اور آزادی صحافت کے لیے خطرناک ہے۔ اس طرح کی بیان بازی اثر سے خالی نہیں ہوتی ہے اور امکان ہے کہ عوام میڈیا سے الگ تھلگ ہوجائے، کچھ مخصوص تاثرات پیدا ہوں اور میڈیا کی ساکھ کو نقصان پہنچے۔ دوسرے معاملات میں، یہ پر تشدد کارروائیوں کا جواز پیش کر سکتا ہے یا اس طرح کے حملوں کو بھڑکا سکتا ہے۔

خواتین صحافیوں کے معاملے میں، اہم سیاسی شخصیات کی بیان بازی میڈیا میں خواتین کے ذاتی حملوں اور کردار کشی پر مبنی ہوتی ہے، جیسا کہ انہیں آن لائن ٹرولنگ اور ہراساں کیا جاتا ہے۔ خان کا یہ دعویٰ کہ نیوز ون کی اینکر غریدہ فاروقی مردوں کی اکثریتی حصّوں میں داخل ہو کر بدسلوکی کے لیے اکسا رہی تھیں، ایک خطرناک بیان ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جب عورت کو ہراساں کیا جاتا ہے تو اس میں غلطی اسی کی ہوتی ہے۔

ریاستی سطح پر میڈیا پر پابندی بلا روک ٹوک جاری ہے۔ اس پورے عرصے کے دوران آزادی اظہار رائے کی راہ میں حائل پالیسیاں اور اقدامات عام تھے اور پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) ایک ریگولیٹر سے زیادہ میڈیا سینسر کے طور پر کام کر رہی تھی۔

ایک حد سے زیادہ متحرک ریگولیٹر، پیمرا نے تمام کوریج موضوعات پر پابندی عائد کردی، جس نے  عوام کو معلومات تک رسائی کے حق سے محروم کردیا اور صحافیوں کو نمایاں طور پر سخت محنت کرنے پر مجبور کیا۔

پیمرا نے سابق وزیراعظم کے خطاب اور دہشت گرد حملوں کی کوریج  پر پابندی سے لے کر عدالتوں کے باہر کارروائی اور موجودہ ججوں کے طرز عمل پر رپورٹنگ پر پابندی تک کم از کم 15 واقعات میں ہدایات یا پابندی کے احکامات جاری کیے ہیں۔ کوریج پر ان مکمل پابندیوں نے اظہار رائے کی آزادی کے لئے جگہ کو مزیدکم  کر دیا ہے اور آزادی اظہار کے لئے بڑھتی ہوئی ریڈ لائنوں اور رکاوٹوں کا ماحول پیدا کیا ہے۔

عام انتخابات سے پہلے، جہاں معلومات کا آزادانہ بہاؤ اور معلومات تک رسائی بہت اہم ہے، وہاں پیمرا کے ایسے اقدامات سے میڈیا کے کردار کے مجروح ہونے کا اندیشہ ہے۔

پیمرا میڈیا ریگولیٹر کے طور پر کام کرنے کے بجائے ایک سنسر بورڈ کے طور پر کام کرتا نظر آتا ہے۔ اس کے امتناعی احکامات نے میڈیا کے اندر کام کرنے کے لیے ریڈ لائنز کی بارودی سرنگوں کا ایک میدان  بنا دیا ہے۔

مزید برآں، اس کی تادیبی کارروائی میں چینلز کی بندش بھی شامل ہے۔

گزشتہ سال لائسنسوں کی منسوخی، چینلز کی بندش اور شوکاز نوٹس کا اجرا دیکھنے میں آیا۔ اے آر وائی نیوز اور بول نیوز متعدد واقعات کے شاہد ہیں جہاں ٹرانسمیشن میں خلل پڑا، ساتھ ہی ساتھ ریاستی حکم پر بندش بھی۔

اگست 2022 میں حکومت نے اے آر وائی کے این او سی منسوخ کر دیا تھا جس کے بعد اس ٹیلی ویژن چینل سے خبروں کی ترسیل معطل ہو گئی تھی۔ یہ اقدام ملک بھر میں چینل کی نشریات معطل کرنے اور اے آر وائی کے عملے کو گرفتار کرنے اور ان کے خلاف مقدمات درج کرنے کے محض چند روز بعد سامنے آیا تھا۔ سندھ ہائی کورٹ نے وزارت داخلہ کا نوٹس معطل کردیا تھا۔

5 ستمبر 2022 کو پیمرا نے وزارت داخلہ کی جانب سے سیکیورٹی کلیئرنس نہ ملنے پر بول نیوز اور بول انٹرٹینمنٹ کی نشریات بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔

یہ بندشیں ایک بار 2023 میں بھی دہرائی گئی تھیں۔ مارچ میں اے آر وائی نیوز اور بول نیوز دونوں کو بندش کا سامنا کرنا پڑا۔

پیمرا نے، 5 مارچ کو پابندی کے حکم کے باوجود سابق وزیراعظم عمران خان کی تقاریر  کے کلپس نشر کرنے پر اے آر وائی کی نشریات معطل کردی تھیں۔ بول نیوز کو، 18 مارچ کو اس وقت بلاک کر دیا گیا تھا جب اس نے پابندی کے حکم کے باوجود سابق وزیر اعظم عمران خان کی پیشی کے دوران جوڈیشل کمپلیکس میں ہونے والی کارروائی  کی نشریات جاری رکھی تھیں۔

چینلز کی بندش  آزادی صحافت کو دبادیتی ہے اور میڈیا ہاؤسز کے لیے مالی مشکلات  پیدا کرتی ہے۔

2023 میں متوقع عام انتخابات  کے ساتھ میڈیا کی حفاظت اور آزادی صحافت پر سیاسی تَقطِيب(  پولرائزیشن ) کے اثرات شدید تشویش کا باعث ہیں۔ اگرچہ آزادانہ طور پر رپورٹنگ کرنے کے لئے میڈیا کا کردار ہمیشہ اہم ہوتا ہے ، لیکن سیاسی منتقلی کے دور میں ، خاص طور پر انتخابات کے لئے جن میں سخت رپورٹنگ اور احتساب کی ضرورت ہوتی ہے ۔ میڈیا کو انتقامی کارروائی بشمول جسمانی حملوں ، دھمکیوں یا قانونی کارروائیوں ، ریاست کی طرف سے لازمی پابندی یا کردار کشی پر مرکوز سیاسی بیان بازی کے استعمال کے خوف کے بغیر ملک میں ہونے والی اہم پیش رفتوں پر رپورٹنگ کرنے کے قابل ہونا چاہئے ۔

اسی طرح آن لائن مواد کی نگرانی کا دباؤ بھی بڑھ گیا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کے دور میں منظور کیے گئے صدارتی آرڈیننس میں ڈیجیٹل میڈیا کے منظرنامے پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول کی تجویز دی گئی تھی، جس سے پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کو تقویت ملے گی۔ بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسے کالعدم قرار دے دیا تھا۔ اقتدار میں آنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت نے آزادی صحافت کے حوالے سے بڑے بڑے وعدے کیے تھے جن میں پی ای سی اے 2016 پر مجوزہ مذاکرات بھی شامل تھے۔ ان مذاکرات  پر کسی پیش رفت یا یہ ہوئے  ہیں یا نہیں، اس کی اطلاع ابھی تک نہیں دی گئی ہے۔
اگرچہ وزیر اطلاعات نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت نے صحافیوں کے خلاف پی ای سی اے 2016 کے تحت کوئی مقدمہ درج نہیں کیا ہے لیکن پی ڈی ایم حکومت میں آزادی صحافت کا ٹریک ریکارڈ کافی حد تک پی ٹی آئی کی پیشرو حکومت جیسا ہی رہا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کے طور پر، ہر ایک نے آزادی اظہار اور آزادی صحافت کا محافظ ہونے کا دعوی کیا ہے۔ اس کے باوجود اقتدار میں آنے کے بعد میڈیا کے تحفظ کو یقینی بنانے، میڈیا ریگولیشن کو کم کرنے یا میڈیا کے خلاف جرائم میں استثنیٰ کے کلچر سے نمٹنے کے لیے بہت کم اقدامات کیے گئے ہیں۔

جیسے جیسے ڈیجیٹل میڈیا اور آن لائن پلیٹ فارمز کا کردار تیزی سے متعلقہ ہوتا جا رہا ہے ، میڈیا آن لائن حملوں کی زد میں آ رہا ہے۔ خاص طور پر، خواتین صحافیوں کے خلاف حملے صنفی نوعیت کے ہوتے ہیں جو میڈیا میں خواتین کے کردار کشی اور ذاتی حملوں پر مبنی ہوتے ہیں۔

اس سال مرحوم صحافی ارشد شریف کی اہلیہ اور خود ایک صحافی جویریہ صدیقی آن لائن ٹرولنگ مہم کا نشانہ بن گئیں۔  صدیق نے ٹویٹ کیا: ‘میرے شوہر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ مجھے کردار کشی کے ذریعے قتل کر دیا جائے گا۔’

فیڈرل پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز ایکٹ 2021اور صوبائی سطح پر سندھ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ آدر میڈیا پریکٹیشنرز ایکٹ 2021 کی کامیابی سے منظوری کے بعد میڈیا پروفیشنلز کے لیے قانونی چارہ جوئی دستیاب ہو گئی ہے۔ اس کے باوجود، ان قوانین کے مؤثر نفاذ کا فقدان ان کے استعمال کو کمزور کرتا ہے. سندھ کمیشن فار دی پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ آدر میڈیا پریکٹیشنرز ایکٹ نومبر 2022 میں تشکیل دیا گیا تھا۔ وفاقی سطح پر صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کے تحفظ کے لیے کمیشن کی تشکیل ابھی باقی ہے۔

اگرچہ انتخابات کے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی صورتحال برقرار ہے، لیکن 2022-23 کے دوران سیاسی ریلیوں اور تقریبات میں میڈیا پر حملوں کی نوعیت، ریاستی سطح پر ریگولیشن، گرفتاریاں اور مقدمات کے اندراج سے عام انتخابات سے قبل میڈیا کی حفاظت کے لئے موثر اور واضح طور پر متعین اقدامات کی ضرورت واضح ہوتی ہے۔

The post پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور پولرائزیشن آزادی صحافت اور میڈیا کے تحفظ پر حملوں کا باعث بن رہا ہے۔ پاکستان پریس فاؤنڈیشن‎‎ first appeared on Pakistan Press Foundation (PPF).